۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
ام البنین

حوزہ/ سلام ہو اس ماں پر جس نے ایسے بیٹے کی تربیت کی جس کے کٹے ہاتھ جنرل قاسم سلیمانی کے ہاتھوں کی شکل میں نمایاں ہو کر دین کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں سے نبرد آزما رہے اور عالمی استکبار کے گریبان کو کھینچ کر مظلوموں کی نصرت تا حیات کرتے رہے اور شہادت کے بعد لاکھوں کروڑوں ہاتھوں کو اسلام کے پرچم کو بلند کرنے کا آرزومند بنا گئے۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | 13 جمادی الثانی وہ تاریخ ہے جس میں بہ روایتے جناب ام البنین علیہا السلام نے انتقال فرمایا اور اس دن کو اسلامی دنیا خاص کر اسلامی جمہوریہ ایران میں ماؤں کی عظمت و تکریم اور راہ حق میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کی زوجات کو خراج عقیدت کے طور پر منایا جاتا ہے۔

جناب ام البنین علیہا السلام کا مختصر تعارف

جناب ام البنین ع کے والد گرامی ابوالمجْل حزّام بن خالد قبیلہ بنی کلاب(۱) سےتعلق رکھتے تھے جبکہ آپ کی مادر گرامی کا نام تاریخ میں لیلی یا ثمامہ بنت سہیل بن عامر بن مالک کے طور پر ذکر ہوا ہے(۲) ۔آپکے سلسلہ سے ملتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا(س) کی رحلت کے بعد خود انہی کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے جب مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے لئے شریکہ حیات کو تلاش کرنا چاہا تو اپنے بھائی عقیل سے جو نسب شناسی میں مشہور تھے، ایک نجیب الطرفین ، شریف خاندان کے سلسلہ سے استفسار کیا تو جناب عقیل نے آپکا نام تجویز کرتے ہوئے کہا عربوں میں بنی کلاب کے مردوں جیسا کوئی دلیر مرد نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسطرح حضرت علی(ع) نے آپ سے شادی کی۔ جسکے نتیجہ میں پروردگار نے آپکو جناب عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان کی صورت میں چار بیٹے عطا کئے(۳) یوں تو آپکا نام فاطمہ بنت حزام تھا لیکن ان بیٹوں کی بنیاد پر آپکو ام البنین(۴) خطاب کیا گیا ۔آپ کے یہ چاروں بیٹے کربلا میں اپنے بھائی اور امام وقت، حضرت سید الشہدا (ع) کے رکاب میں شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہوئے۔

جب آپکو اپنے بیٹوں کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے برجستہ کہا :‌ “اے کاش میرے بیٹے اور جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے میرے حسین(ع) پر فدا جاتے اور وہ{ سید الشہداء علیہ السلام }زندہ ہوتے” ۔ آپ کو شعر گوئی پر بھی عبور حاصل تھا اوراسی لئے آپکو صاحب فضل شاعرہ جانا جاتا تھا۔(۶) چنانچہ آپ نے حضرت عباس علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنی تو ایک مرثیہ پڑھا جسکے کچھ اشعار کا مفہوم یہ ہے:

” اے وہ جس نے عباس{ع} کو دشمن پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا ہے جو دشمن کا تعاقب کر رہا تھا۔ سنا گیا ہے کہ میرے بیٹے کے ہاتھ جدا ہوگئے تھے اور اس کے سر پر گرز مارا گیا تھا۔ اے میرے لعل اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو کوئی تیرے نزدیک نہیں آسکتا”(۷)
ہمارا کروڑوں درود و سلام ہو اس ماں پر جس نے اپنے چار بیٹے راہ خدا میں قربان کر دئیے جن میں ایک بیٹا علمدار کربلا جیسا بھی تھا جسے قمر بنی ہاشم کہا جاتا تھا لیکن اسکے باوجود اس ماں کی آرزو یہ تھی کہ اسکا سب کچھ چھن جاتا لیکن امام وقت پر آنچ نہ آتی ۔سلام ہو اس ماں پر جس نے ایسے بیٹے کی تربیت کی جس کے کٹے ہاتھ جنرل قاسم سلیمانی کے ہاتھوں کی شکل میں نمایاں ہو کر دین کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں سے نبرد آزما رہے اور عالمی استکبار کے گریبان کو کھینچ کر مظلوموں کی نصرت تا حیات کرتے رہے اور شہادت کے بعد لاکھوں کروڑوں ہاتھوں کو اسلام کے پرچم کو بلند کرنے کا آرزومند بنا گئے۔

شک نہیں کہ ہماری مائیں بہنیں اگر جناب ام البین جیسی خواتین کی زندگی کو اپنا نمونہ عمل بنا لیں تو سماج و معاشرہ کے حوالے ایسے بچوں کو تربیت کر کے پیش کر سکتی ہیں جو ہماری طرف بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کے ہاتھ کاٹ سکیں لیکن اس کے لئیے ضروری ہے کہ ہماری خواتین پہلے مرحلہ میں اپنے دور کے تقاضوں سے آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ بھی ہوں اور تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ محض دنیاوی تعلیم ،بلکہ دنیا کے ساتھ ساتھ علم دین سے بھی آشنا ہوں کہ ایسے بچوں کی تربیت کی جا سکے جو ہر محاذ پر اپنے ہمارے سماج کے رکھوالے ہوں چاہیں وہ علمی محاذ ہو سماجی یا پھر معیشتی و ثقافتی ۔

ایسے میں جناب ام البنین کا آفاقی کردار ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ اگر ہم دینی اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے اپنی زندگی کو آگے بڑھائیں تو عباس(ع) تو نہیں سیرت ابو الفضل العباس پر چلنے والے ان غلاموں کو ضرور معاشرہ کے حوالے کر سکتی ہیں جو پرچم دار کربلا تو نہیں لیکن فکر کربلا کا پرچم ضرور اٹھائیں گے۔

ہمارا سلام ہو ان ماوں پر جو جناب ام البین جیسی عظیم ماں کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنے گود کے پالوں کو سجا کر اس میدان کارزار میں بھیجتی رہیں اور بوقت ضرورت آج بھی گمنام محاذوں پر انکی گود کے پالے عالمی سامراج کےخلاف تمام تر سرحدوں سے ماوراء پرچم حسینیت کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں وہی فرزندان توحید جو آج یمن عراق و شام میں حق و باطل کی پہچان کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور اس معرکہ میں پیش پیش ہیں جسکا سرا 61 ہجری کے معرکہ کربلا سے جڑا ہے۔

یقینا چاہے اسلامی جمہوریہ کے شہدا ہوں، یا افغانستان کے فاطمیون و سرزمین پاکستان کے زینبیوں، چاہے وہ حزب اللہ کے فداکار و جانباز سپاہی ہوں یا حشد الشعبی کے جیالے سب کے سب اگر باطل کے خلاف ڈٹے رہے اور آج بھی یوں جمے ہیں کہ باطل پرست طاغوتی طاقتوں کے ماتھوں پر پسینہ کے قطرے ہیں کہ ان حق پر مر مٹنے والوں نے معرکہ کا رنگ ہی بدل کر رکھ دیا ہے، جنکے سامنے نہ توپ و ٹینک کے آگ اگلتے دہانے کام آ رہے ہیں نہ میزائلیں اور جنگی طیارے انکے عزم و حوصلہ کو پسپا کرنے میں کامیاب ہیں تو یہ نتیجہ ہے ان ماوں کی تربیت کا جنہوں نے اپنے بچوں کو علمدار کربلا (ع) کی شجاعت کی داستانیں سنا سنا کر یوں بڑا کیا ہے کہ وہ بھوکے پپاسے مظلومیت کے ساتھ اپنے وطن سے کوسوں دور فرات حق پر قبضہ جمائے ہیں سلام ہو ان ماوں پر جنہوں نے پرچم عباس کی چھاوں میں اپنےشیروں کو یزیدیت کو پسپا کرنے کی تلقین پر مشتمل لوریاں کچھ اس طرح سنائیں کہ فکر یزیدیت کو کہیں اماں نہیں ہے جہاں یہ سر اٹھارتی ہے وہیں کنیزان ام البین کے شیر پہنچ جاتے ہیں ۔

پروردگار ان تمام ماوں کا سایہ مجاہدین راہ حق پر قائم رکھے جو دشمنان دین سے مقابلہ کے لئے سب کچھ چھوڑ کر نکل پڑے ہیں انکے پاس اگر کچھ ہے تو ماں کی دعائیں اور بس ۔

حوالہ جات

[۱] طبری، تاریخ، ج۴، ص۱۱۸.

[۲] ابن عنبہ، عمدۃ الطالب،‌ ص۳۵۶؛ غفاری، تعلیقات بر مقتل الحسین، ص۱۷۴.

[۳] اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۲ -۸۴؛ ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ص۳۵۶؛ حسّون، اعلام النساء المؤمنات، ص۴۹۶ا.

[۴] ۔ بیٹوں کی ماں

[۵] حسون، اعلام النساء المؤمنات، ص۴۹۶-۴۹۷؛ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۳، ص۲۹۳.

[۶] اعیان الشیعہ، ج۸، ص۳۸۹.

[۷] ۔محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۳، ص۲۹۴ و تنقیح المقال، ج۳، ص۷۰

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .